Sunday 30 January 2022

بادۂ عشق میں پیا ہی نہیں

 بادۂ عشق میں پیا ہی نہیں

میرے بس کا یہ روگ تھا ہی نہیں

ہاتھ جب دل پہ رکھ دیا اس نے

یوں لگا جیسے درد تھا ہی نہیں

شوق سے دیکھتا ہوں کیوں اس کو

ہائے کم بخت پوچھتا ہی نہیں

تُو بھی ساحل سے دیکھتا ہی رہا

دوستوں کا تو تذکرہ ہی نہیں

دولتِ دہر چاہیے سب کو

چاہتوں پر تو اکتفا ہی نہیں

رونقِ شب میں مانتا ہوں اسے

یہ جدائی فقط سزا ہی نہیں

مجھ سے ناراض ہے خدا لیکن

دل مِری دسترس میں تھا ہی نہیں

روزِ محشر خدا سے کہہ دوں گا

میں تو دانش کو جانتا ہی نہیں


دانش نذیر دانی

No comments:

Post a Comment