بادۂ عشق میں پیا ہی نہیں
میرے بس کا یہ روگ تھا ہی نہیں
ہاتھ جب دل پہ رکھ دیا اس نے
یوں لگا جیسے درد تھا ہی نہیں
شوق سے دیکھتا ہوں کیوں اس کو
ہائے کم بخت پوچھتا ہی نہیں
تُو بھی ساحل سے دیکھتا ہی رہا
دوستوں کا تو تذکرہ ہی نہیں
دولتِ دہر چاہیے سب کو
چاہتوں پر تو اکتفا ہی نہیں
رونقِ شب میں مانتا ہوں اسے
یہ جدائی فقط سزا ہی نہیں
مجھ سے ناراض ہے خدا لیکن
دل مِری دسترس میں تھا ہی نہیں
روزِ محشر خدا سے کہہ دوں گا
میں تو دانش کو جانتا ہی نہیں
دانش نذیر دانی
No comments:
Post a Comment