کوئی عہد وفا بھولا ہوا ہوں
نہیں کچھ یاد کیا بھولا ہوا ہوں
خبر گیری کروں گا کیا کسی کی
میں خود اپنا پتا بھولا ہوا ہوں
اگر مانگوں تو شاید پا سکوں کچھ
مگر حرفِ دعا بھولا ہوا ہوں
خود اپنے شہر ہی میں ہوں مسافر
میں گھر کا راستہ بھولا ہوا ہوں
مجھے ہے یاد جو تجھ سے سنا تھا
خود اپنا ہی کہا بھولا ہوا ہوں
ہوں زندہ اس لیے فرقت میں اب تک
کہ نشہ وصل کا بھولا ہوا ہوں
دعائیں مانگتا ہوں سب کی خاطر
خود اپنا مدعا بھولا ہوا ہوں
غم دنیا،۔ غم دوراں،۔ غم دل
سبھی تیرے سوا بھولا ہوا ہوں
ندیم اس کے بنا جیون یہ میرا
جزا ہے یا سزا بھولا ہوا ہوں
فرحت ندیم ہمایوں
No comments:
Post a Comment