دنیا ہے منتظر یہاں اکرام کے لیے
میں منتظر ہوں اک نئے الزام کے لیے
آنکھوں کے ان کٹوروں میں کچھ بانجھ حسرتیں
رختِ سفر ہیں منزلِ گمنام کے لیے
میں اپنے ہی مزار کی لوئے چراغ ہوں
مدت سے محوِ رقص ہو بس نام کے لیے
میرے لیے تو دنیا ہی بازارِ مصر ہے
گوندھا گیا ہوں میں بھی تو نیلام کے لیے
ٹھہری ہوئی ہے پلکوں پہ امیدِ نا تمام
مدت سے اپنے آخری انجام کے لیے
میں دو دلوں کے عشق کی معراج ہوں مگر
آیا ہوں اپنے سامنے دشنام کے لیے
خوابوں کی آنکھیں سرخ ہیں سوکھے ہوئے گلے
اور محوِ رقص جسم ہے اک جام کے لیے
جوگی کو جوگ حسن کو تابانیوں کے رنگ
بخشے ہیں صرف فانی سی اک شام کے لیے
پہلے تو روپ دے دیا صیاد کا مجھے
پھر مجھ سے کہہ دیا ہے مکیں دام کے لیے
سجدوں میں آنکھ موجِ نسیمی سے تر بتر
ہم نے رکھی تو عارضی گلفام کے لیے
نسیم شیخ
No comments:
Post a Comment