Sunday, 30 January 2022

سمندر کی جانب ہی چلتے رہیں گے

 سمندر کی جانب ہی چلتے رہیں گے

جو دریا ہیں رستے بدلتے رہیں گے

جو منظر مِری آنکھ میں چل رہے ہیں

سفر ہیں سفر میں ہی ڈھلتے رہیں گے

زمانہ کبھی ایک جیسا نہ ہو گا

شب و روز یوں ہی بدلتے رہیں گے

یہ مے خانہ ہے کوئی معبد نہیں ہے

بہکتے رہیں گے سنبھلنے رہیں گے

یہ خون جگر سے لکھے شعر میرے

یہ پھل پھول ہیں یہ تو پھلتے رہیں گے

کئی حادثے اور کئی سانحے اب

مقدر میں ہو گا تو ٹلتے رہیں گے

یہ سانسیں چلیں گی جہاں تک بھی فائز

محبت کی حدت میں جلتے رہیں گے


منصور فائز

No comments:

Post a Comment