سمندر کی جانب ہی چلتے رہیں گے
جو دریا ہیں رستے بدلتے رہیں گے
جو منظر مِری آنکھ میں چل رہے ہیں
سفر ہیں سفر میں ہی ڈھلتے رہیں گے
زمانہ کبھی ایک جیسا نہ ہو گا
شب و روز یوں ہی بدلتے رہیں گے
یہ مے خانہ ہے کوئی معبد نہیں ہے
بہکتے رہیں گے سنبھلنے رہیں گے
یہ خون جگر سے لکھے شعر میرے
یہ پھل پھول ہیں یہ تو پھلتے رہیں گے
کئی حادثے اور کئی سانحے اب
مقدر میں ہو گا تو ٹلتے رہیں گے
یہ سانسیں چلیں گی جہاں تک بھی فائز
محبت کی حدت میں جلتے رہیں گے
منصور فائز
No comments:
Post a Comment