جب کبھی زخم شناسائی کے بھر جاتے ہیں
تیری گلیوں سے گزرتے ہوئے گھر جاتے ہیں
ٹھیک سے زخم کا اندازہ کیا ہے کس نے
بس سنا تھا کہ بچھڑتے ہوئے مر جاتے ہیں
سب کے کہنے پہ بہت حوصلہ کرتے ہیں تو ہم
حد سے حد، اس کے برابر سے گزر جاتے ہیں
اور تو خوف نہیں ہم کو کسی کا، لیکِن
کوئی اپنا سا نظر آئے تو ڈر جاتے ہیں
جو ضروری تھا، وہی پوچھنا ہم بھول گئے
راستے بند اگر ہوں تو کدھر جاتے ہیں
جان دے کر بھی تِرا وعدہ نبھانے والے
تیرے حق میں کوئی اچھا نہیں کر جاتے ہیں
جو مجسم ہیں، انہیں دیکھنا منظور نہیں
سائے تصدیق کی کوشِش میں بکھر جاتے ہیں
لوگ تو جاتے ہی رہتے ہیں دیارِ دل سے
سب مگر اتنا اکیلا نہیں کر جاتے ہیں
شارق کیفی
No comments:
Post a Comment