Sunday, 30 January 2022

جب کبھی زخم شناسائی کے بھر جاتے ہیں

 جب کبھی زخم شناسائی کے بھر جاتے ہیں

تیری گلیوں سے گزرتے ہوئے گھر جاتے ہیں

ٹھیک سے زخم کا اندازہ کیا ہے کس نے

بس سنا تھا کہ بچھڑتے ہوئے مر جاتے ہیں

سب کے کہنے پہ بہت حوصلہ کرتے ہیں تو ہم

حد سے حد، اس کے برابر سے گزر جاتے ہیں

اور تو خوف نہیں ہم کو کسی کا، لیکِن

کوئی اپنا سا نظر آئے تو ڈر جاتے ہیں

جو ضروری تھا، وہی پوچھنا ہم بھول گئے

راستے بند اگر ہوں تو کدھر جاتے ہیں

جان دے کر بھی تِرا وعدہ نبھانے والے

تیرے حق میں کوئی اچھا نہیں کر جاتے ہیں

جو مجسم ہیں، انہیں دیکھنا منظور نہیں

سائے تصدیق کی کوشِش میں بکھر جاتے ہیں

لوگ تو جاتے ہی رہتے ہیں دیارِ دل سے

سب مگر اتنا اکیلا نہیں کر جاتے ہیں


شارق کیفی

No comments:

Post a Comment