میں کیا کہوں تیری قربت کا کس کس کو یہاں پیغام ملا
ہر ذرہ کلیم شوق بنا ہر شئے کو لطفِ کلام ملا
مےخانۂ فطرت کے ساقی! یہ ظرف تِرا یہ فیاضی
جو تشنہ نہیں محفل میں تِری اس کو بھی چھلکتا جام ملا
عرفاں کے دریچے ایسے کُھلے ہر پردہ اٹھا ہر جہل مٹا
ہر سو نظر آئے جلوے تِرے ہر سمت نیا پیغام ملا
ایسے بھی مقدر والے تھی دنیا میں ہزاروں لاکھوں جنہیں
تُو دن کو ملا، تُو شب کو ملا، تُو صبح ملا، تو شام ملا
کلیوں کی چٹک میں تیری صدا پھولوں کی مہک میں تیری ادا
ہر شاخ میں تیری لچک دیکھی، ہر برگ پہ تیرا نام ملا
اے چارہ گر! ہر رنج و الم تُو واقعی جانِ حکمت ہے
آتے ہی زباں پر نام تِرا، تسکین ہوئی، آرام ملا
جو بات سمجھ سے باہر تھی وہ بات سمجھ میں آ کے رہی
تُو علم و یقیں کی دنیا میں تغلیط کُنِ اوہام ملا
طرفہ قریشی
No comments:
Post a Comment