خبر نہیں اس نے بات کی ہے یا مارے پتھر
کہ اس کی آنکھوں کے لگ رہے تھے اشارے پتھر
گزر نہیں ہے ہماری آنکھوں میں پانی کا بھی
مگر تمہاری کرامتوں سے گزارے پتھر
کوئی تمہارے ستم کی فریاد کررہا ہے
یہ کس کو وحشت میں یاد آئے تمہارے پتھر
ہمارے ہاتھوں میں خوبصورت نہیں لگے ہیں
پہن کے دیکھے ہیں ہم نے سارے کے سارے تھر
ہماری برسی تھی یا جنم دن خبر نہیں ہے
کہ آہ و فریاد تالیاں تھیں، غبارے پتھر
ندی کے پانی میں اک تسلسل سے جل رہے ہیں
حسین ہاتھوں سے خرچ ہوتے بیچارے پتھر
تراش کر ان سے ہم نے ہیرے بنائے عابد
خدا کے بخشے ہوئے ہنر سے سنوارے پتھر
علی عابد
No comments:
Post a Comment