Monday, 31 January 2022

خبر نہیں اس نے بات کی ہے یا مارے پتھر

  خبر نہیں اس نے بات کی ہے یا مارے پتھر

کہ اس کی آنکھوں کے لگ رہے تھے اشارے پتھر

گزر نہیں ہے ہماری آنکھوں میں پانی کا بھی

مگر تمہاری کرامتوں سے گزارے پتھر

کوئی تمہارے ستم کی فریاد کررہا ہے

یہ کس کو وحشت میں یاد آئے تمہارے پتھر

ہمارے ہاتھوں میں خوبصورت نہیں لگے ہیں

پہن کے دیکھے ہیں ہم نے سارے کے سارے تھر

ہماری برسی تھی یا جنم دن خبر نہیں ہے

کہ آہ و فریاد تالیاں تھیں، غبارے پتھر

ندی کے پانی میں اک تسلسل سے جل رہے ہیں

حسین ہاتھوں سے خرچ ہوتے بیچارے پتھر

تراش کر ان سے ہم نے ہیرے بنائے عابد

خدا کے بخشے ہوئے ہنر سے سنوارے پتھر


علی عابد

No comments:

Post a Comment