ٹوٹ نہ جائے آس کا بندھن پھر سے دیا جلاؤ نا
من مورکھ کو دھیرے دھیرے سب باتیں سمجھاؤ نا
اب بھی من کی دیواروں پر بیتی رات کے جالے ہیں
شیش نگر کے اندھیاروں کو سورج سے سہلاؤ نا
شام ڈھلے تو بے گھر پنچھی کس منزل کی اور چلے
بھولے بھٹکے بنجارے کو رستہ تو دِکھلاؤ نا
پون چلے تو گہرا بادل بِرہا بن پر آ برسے
برکھا رُت کی بوچھاڑوں میں گھات لگانے آؤ نا
پریم کی ریشم ڈوری میرے بھاگ کی لچھمن ریکھا ہے
آڑے ترچھے گھاؤ بہت ہیں آؤ اور لگاؤ نا
نیند کا پنچھی آ ٹھہرا ہے آنکھ کی سُونی بستی میں
بے کل آنکھ کی سونی بستی سپنوں سے مہکاؤ نا
رانا غضنفر عباس
No comments:
Post a Comment