Saturday 29 January 2022

مجبورئ آدابِ مشیت سے خریدا

 مجبورئ آدابِ مشیت سے خریدا

کب رختِ جہاں میں نے ضرورت سے خریدا

اٹھ آئے تِری بزم سے ہم تیرے کہے پر

یہ جبر کا سودا تھا، مروت سے خریدا

ہر جسم پہ یوں تنگ ہے یہ جامۂ ہستی

جس نے بھی خریدا ہے شکایت سے خریدا

جاں دے کے تِرے نقش مسخر کیۓ ہم نے

قامت کے تصور کو قیامت سے خریدا

بادل کی طرح ہم بھی گزر جاتے برس کر

آنکھوں کا بھرم اشکِ ندامت سے خریدا

زہر اس نے دیا، گوشۂ لب میں نے بڑھایا

نفرت کا رویہ بھی محبت سے خریدا

وہ بھیڑ تھی بازارِ مسائل میں کہ ساجد

اک لمحۂ فرصت بڑی دقت سے خریدا


ساجد امجد

No comments:

Post a Comment