رفو گر سے یکطرفہ مکالمہ
رفوگر میرے زخموں کو
اگر سینا ہی ہے تو نے
تو ایسا کر
بہت مضبوط سی ان کو
نا کوئی زخم ابھرے
اور
نا ہی تکلیف ہو مجھ کو
یہی ہے میری فرمائش
اگر ممکن نہیں ایسا
تو پھر ایسے ہی رہنے دے
کھلے زخموں کی عادت ہو گئی مجھ کو
اگر یہ سل بھی جائیں تو
ملے گا کیا
نیا کورا بدن مجھ کو؟
نہیں ممکن
تو رہنے دے
یہ زخموں زخم چہرہ ہی
میری پہچان ٹھہرا ہے
سلا کر زخم میں سارے
نشانی اپنی کھو دوں کیا
میری پہچان کھو جائے
تجھے تسکین ہو گی کیا؟
رفوگر چھوڑ دے مجھ کو
مِرے یہ زخم رہنے دے
یہی پہچان ہیں میری
عینی زا سید
No comments:
Post a Comment