دل میں ٹیسیں جاگ اٹھتی ہیں پہلو بدلتے وقت بہت
اپنا زمانہ یاد آتا ہے، سورج ڈھلتے وقت بہت
وہ پرچم وہ سر کے طُرے اور وہ سفینے اپنے تھے
جن کو دیکھ کے شعلے بھی روئے تھے جلتے وقت بہت
ان شیشوں کے ریزوں کا مرہم ہے اپنے زخموں پر
لمحہ لمحہ جو ٹوٹے تلواریں چلتے وقت بہت
پل بھر میں پانی ہوتے دیکھے ہیں صنم کرداروں کے
ہم کیسے کہہ دیں لگتا ہے سنگ پگھلتے وقت بہت
سونے کتنے بام ہوئے کتنے آنگن بے نور ہوئے
چاند سے چہرے یاد آتے ہیں چاند نکلتے وقت بہت
اب ہر گھر کی چوکھٹ ہم پر ہنستی ہے تو راز کُھلا
پھوٹ پھوٹ کر روئی تھیں کیوں دہلیزیں چلتے وقت بہت
دو نسلوں کی کشتی تھی وہ پچھلے دنوں جو ڈوب گئی
بھیگے جسموں والو لگے گا تم کو سنبھلتے وقت بہت
اختر لکھنوی
No comments:
Post a Comment