یہ سچ ہے مِری جان کہ نایاب ہیں آنکھیں
چاہت کی کتابوں کا حسیں باب ہیں آنکھیں
پروازئ رفتار کو میں دیکھ کے سوچوں
شاہینِ زمانہ ہے کہ سرخاب ہیں آنکھیں
یہ ہجر غمِ یار کی لذت کا اثر ہے
اس قدر شب و روز جو پُر آب ہیں آنکھیں
لاتا ہے جہاں موسمِ غم اشک کی کشتی
اس جھیل سی آنکھوں میں ہی غرقاب ہیں آنکھیں
دکھلا دے ہمیں ایک جھلک عارضِ تاباں
مدت سے تِری دید کو بیتاب ہیں آنکھیں
آنکھوں کو اسد آپ بھی کیا کیا نہیں کہتے
پر جھیل نہ دریا نہ ہی تالاب ہیں آنکھیں
اسد ہاشمی
No comments:
Post a Comment