Monday 31 January 2022

ہزاروں بار جو بنتے ہیں محور ٹوٹتے ہیں

 ہزاروں بار جو بنتے ہیں محور ٹوٹتے ہیں

مِرے بستر پہ سارے خواب تھک کر ٹوٹتے ہیں

ٹپکتا ہے کسی تصویر سے جب لمس اُس کا

مِری آغوش میں آ کر سمندر ٹوٹتے ہیں

تمہارے بعد ہاتھوں پر نہیں جچتی یہ گھڑیاں

الجھ کر خود سے اب لمحوں کے یاور ٹوٹتے ہیں

ابلتی ہیں تماشوں پر یہاں لوگوں کی آنکھیں

ہمارے اشک بھی سینے کے اندر ٹوٹتے ہیں

کسی کا نام ہونٹوں پر بس اک دن جھلملایا

ستارے تب سے آ کر میری چھت پر ٹوٹتے ہیں


نوید ملک

No comments:

Post a Comment