بے دم ہوئے یوں ہو کے گرفتار محبت
کہتا ہے مسیحا کہ ہوں بیمار محبت
روتا ہے شب ہجر میں دل خون کے آنسو
ملتا نہیں کوئی اسے غم خوار محبت
ان حسن کی گلیوں میں خریدار بہت ہیں
لگتا ہے شب و روز یہ بازار محبت
الفاظ ہیں خنجر تو بجھا زہر میں لہجہ
ایسے میں بھلا کیسے ہو اقرار محبت
اب عشق ہے رسوا تو بگڑتا ہے ترا کیا
بے کار میں کرتا ہے تو پیکار محبت
مٹ جائیں گے ہم ان کو خبر تک نہیں ہوگی
یہ سوچ کے کرنا پڑا اظہار محبت
اب دیکھیں وہاں کون لگائے نئی بولی
آتے ہیں جہاں روز خریدار محبت
تنہائی میں سوچا تجھے جانا تجھے سمجھا
پھر کھلنے لگے ہم پہ بھی اسرار محبت
تشنہ سے کریں لوگ محبت کی جو باتیں
کیسے میں بتاؤں کہ ہوں بے زار محبت
حمیرا گل تشنہ
No comments:
Post a Comment