پہلے ہمارے دل پہ نشانے لگاؤ گے
پھر اُس کے بعد ہم کو ٹھکانے لگاؤ گے
پل کی خبر نہیں ہے ہماری ہمیں یہاں
تم کیا ہمارے نام زمانے لگاؤ گے
آنکھوں کی پتلیوں کو نئے رنگ دو گے تم
بالوں میں روز پھول سہانے لگاؤ گے
ہم جانتے تھے رنج و الم دو گے تم ہمیں
ہم جانتے تھے ہم کو سرہانے لگاؤ گے
اب کہ برس بھی داد اٹھانے کے واسطے
تازہ غزل میں شعر پرانے لگاؤ گے
زہرا کو اور کتنا ستاؤ گے تم بھلا
اب اور کتنی دیر بہانے لگاؤ گے
زہرا بتول
No comments:
Post a Comment