تِری دہلیز پہ ان آئے ہووں کا کیا ہو؟
کیا ہو بتلا تِرے ٹھکرائے ہووں کا کیا ہو
پھول تھے اور ہمیں کھلتے ہوئے توڑا گیا
اب بھی ہیں پھول پہ مُرجھائے ہووں کا کیا ہو
تیر کے زخم ہیں بھر جائیں گے پرواہ نہیں
تیری گفتار کے زخمائے ہووں کا کیا ہو
فیصلہ دیر سے ہونے کی اذیت، توبہ
جلدی دربار میں ان لائے ہووں کا کیا ہو
ٹھیک ہے تجھ پہ اب اشعار نہیں لکھوں گا
پر مِرے لکھے، تِرے گائے ہووں کا کیا ہو
خوش رہا کرنا؛ میں جب سے کہا ہے اس نے
ہائے اس وقت سے گھبرائے ہووں کا کیا ہو
زہر کھا لیتے تو بچ جاتے صداقت طاہر
پر تِرے ہجر کا غم کھائے ہووں کا کیا ہو
صداقت طاہر
No comments:
Post a Comment