زہرا نے بہت دن سے، کچھ بھی نہیں لکھا ہے
حالانکہ دیریں اثنا، کیا کچھ نہیں دیکھا ہے
پر لکھے تو کیا لکھے اور سوچے تو کیا سوچے
کچھ فکر بھی مبہم ہے، کچھ ہاتھ لرزتا ہے
زہرا نے بہت دن سے، کچھ بھی نہیں لکھا ہے
دیوانی نہیں اتنی، جو منہ میں ہو بک جائے
چپ شاہ کا روزہ بھی، یوں ہی نہیں رکھا ہے
بوڑھی بھی نہیں اتنی اس طرح وہ تھک جائے
اب جان کے اس نے، یہ انداز بنایا ہے
ہر چیز بھلاوے کے صندوق میں رکھ دی ہے
آسانی سے جینے کا اچھا یہ طریقہ ہے
زہرا نے بہت دن سے، کچھ بھی نہیں لکھا ہے
گھر بار سمجھتی تھی، قلعہ ہے حفاظت کا
دیکھا کہ گرھستی بھی، مٹی کا کھلونا ہے
مٹی ہو کہ پتھر ہو، ہیرا ہو، کہ موتی ہو
گھر بار کے مالک کا، گھر بار پہ قبضہ ہے
احساسِ حکومت کے، اِظہار کا کیا کہنا
انعام ہے مذہب کا جو ہاتھ میں کوڑا ہے
زہرا نے بہت دن سے، کچھ بھی نہیں لکھا ہے
دیوار پہ ٹانگا تھا، فرمان رفاقت کا
کیا وقت کے دریا نے، دیوار کو ڈھایا ہے
فرمانِ رفاقت کی، تقدیس بس اتنی ہے
اِک جنبشِ لب پر ہے، رشتہ جو ازل کا ہے
زہرا نے بہت دن سے، کچھ بھی نہیں لکھا ہے
دو بیٹوں کو کیا پالا، ناداں یہ سمجھتی تھی
اس دولتِ دنیا کی، مالک وہی تنہا ہے
پر وقت نے آئینہ، کچھ ایسا دکھایا ہے
تصویر کا یہ پہلو، اب سامنے آیا ہے
بڑھتے ہوئے بچوں پر، کھلتی ہوئی دنیا ہے
کھلتی ہوئی دنیا کا ہر باب تماشہ ہے
ماں باپ کی صُورت تو، دیکھا ہوا نقشہ ہے
دیکھے ہوئے نقشے کا ہر رنگ پرانا ہے
زہرا نے بہت دن سے، کچھ بھی نہیں لکھا ہے
سوچا تھا بہن بھائی، دریا ہیں محبت کے
دیکھا کہ کبھی دریا، رستہ بھی بدلتا ہے
بھائی بھی گرفتار مجبوریٔ خدمت ہیں
بہنوں پہ بھی طاری ہے، قسمت کا جو لکھا ہے
اک ماں ہے جو پیڑوں سے باتیں کیۓ جاتی ہے
کہنے کو ہیں دس بچے، اور پھر بھی وہ تنہا ہے
زہرا نے بہت دن سے، کچھ بھی نہیں لکھا ہے
حالانکہ دیریں اثنا، کیا کچھ نہیں دیکھا ہے
زہرا نگاہ
زہرہ نگاہ
No comments:
Post a Comment