تری آواز کا مرہم
جو اب اک لفظ بھی بولے گا تُو
میں قید کر لُوں گی
تِری آواز کو مٹھی میں بھر لوں گی
تِری فرقت کا موسم جب مِری کھڑکی میں اترے گا
تِری آواز کا زیور پہننے کے لئے جب کان ترسیں گے
ٹھٹھکتا، دم بخود وہ وقت
آئندہ کے در سے آ کے جھانکے گا
سماعت، خامشی کے رنج میں ڈوبی
کسی آسیب میں جکڑے ہوئے جنگل کے پہلو میں
کسی ویراں حویلی کی دوپہروں سی
اماوس رات کی وحشت سے بوجھل
جھانکتی، سہمی منڈیروں سی
یہاں جب خامشی کے زہر چھلکاتے ہوئے سفاک ناخن
میرے اِن کانوں میں کچھ نیلی خراشیں چھوڑ جائیں گے
میں پھر سے مہرباں ساعت تراشوں گی
کہیں پھر رفتگاں میں جھانک کر راحت تلاشوں گی
وہی اک لفظ جو میں نے سنبھالا تھا
کسی گلرنگ لمحے میں
اسے اپنی سماعت میں انڈیلوں گی
تری آواز کے مرہم سے اپنے زخم بھر لوں گی
میں اپنی سرمئی، وِیراں سماعت
سبز کر لوں گی
عنبرین صلاح الدین
No comments:
Post a Comment