Friday 28 January 2022

سب راز پرانے کھولے گا اک روز کٹہرا بولے گا

 اک روز کٹہرا بولے گا


ہر ایک عدالت میں یارو

اِک چیز کٹہرا ہوتی ہے

یہ چیز بھی کیسی یکتا ہے

نہ ہنستی ہے نہ روتی ہے

اِس ایک کٹہرے نے اب تک

کیا کیا نہیں منظر دیکھے ہیں

منصور سے مُجرم دیکھے ہیں

سُقراط سے مُنکر دیکھے ہیں

یاں صوفی سنت بھی پہنچے ہیں

غدار بھی اس پر آئے ہیں

آزادی کے متوالوں نے بھی

گیت یہاں پر گائے ہیں

یہ وہی کٹہرا ہے جس پر

ہر قوم کے ہیرو آتے ہیں

کُچھ زہر پیالہ پیتے ہیں

کُچھ سُولی پہ چڑھ جاتے ہیں

یہ ایک کٹہرا کیا شے ہے

یاں کیسا کیسا کھیل ہوا

یاں اک پلڑے میں برابا

اور اک پلڑے میں عیسٰی تھا

پھر اسی کٹہرے نے دیکھا

کہ سچ کو یوں انصاف ملا

اِک قاتل مُجرم بچ نکلا

اور عیسٰی دار پہ جھول گیا

اِنصاف کی کرسی کے منصف

جو لکھتے رہے جو کہتے رہے

چُپ چاپ کٹہرا سنتا رہا

کہ اس پر وقت کے پہرے تھے

جب وقت کا پہرہ اٹھا تھا

تاریخ نے جب انصاف کیا

اِس روز کٹہرے نے اپنے

ہونٹوں کا تالا توڑ دیا

پھر صرف کٹہرا بولا تھا

ہر راز پُرانا کھولا تھا

تاریخ نے تب اعلان کیا

سب جھوٹے، عیسٰی سچا تھا

جب پھر تاریخ نے عدل کیا

اِس روز کٹہرا بولے گا

اِس دور کا عیسٰی کون بنا؟

سب راز پُرانے کھولے گا

اِک روز کٹہرا بولے گا


خالد جاوید جان​

No comments:

Post a Comment