جب تعارف سے بے نیاز تھا میں
کوئی زاہد نہ سرفراز تھا میں
جب ہُوا آشکار، تب جانا
اپنے بارے میں کوئی راز تھا میں
اب تو سانسوں میں بھی نہیں ترتیب
پہلے وقتوں میں نے نواز تھا میں
اے مِری انتہائے بربادی
کس قدر مبتلائے ناز تھا میں
سب کو قدرت تھی خوش کلامی پر
خامشی میں زباں دراز تھا میں
بھول جاتا ہے اب دعاؤں میں
پہلے جس کے لیے نماز تھا میں
سرفراز زاہد
No comments:
Post a Comment