Friday 28 January 2022

زندگی کے نام پر دھوکا ہوا اچھا ہوا

 زندگی کے نام پر دھوکا ہُوا، اچھا ہوا

جو ہوا جو بھی ہوا جیسا ہوا، اچھا ہوا

کھا رہا تھا دھیرے دھیرے یہ سکوت جاں مجھے

محشرِ جاں جا بجا برپا ہوا، اچھا ہوا

ہو کے باغی آنکھ سے آنسو گِرا رخسار پر

صحبت ہجراں وہی دریا ہوا، اچھا ہوا

لے رہی تھی سسکیاں قرطاس پر تحریر جاں

ذائقہ تحریر کا کڑوا ہوا، اچھا ہوا

انگلیاں اٹھنے لگیں تھیں حسرت بے نام پر

حسرتوں کا عکس اب دھندلا ہوا، اچھا ہوا

تھی مزار عشق پر منت کی چادر کی طرح

زندگی تیرا یہاں سودا ہوا، اچھا ہوا

جس محبت کے لیے دنیا کو ٹھوکر مار دی

آج اس کے نام پر رسوا ہوا، اچھا ہوا

کب تلک رہتا سلامت مخلصی کا پیرہن

گردشوں کے ہاتھ یہ میلا ہوا، اچھا ہوا

ہوش میں رہتے ہوئے مدہوش تھا سوچا نہیں

رہ گیا میں جا بجا بکھرا ہوا، اچھا ہوا

کہہ گئی موج نسیمی دیکھ کر چہرا مرا

ہو گیا دار و رسن لکھا ہوا، اچھا ہوا


نسیم شیخ

No comments:

Post a Comment