خواہش ہے کہ اس طور سے جیون کو گزاروں
ہر عکس تِرے حسن کا آنکھوں میں اتاروں
وہ تشنہ لبی ہے کہ سمجھ کچھ نہیں آتا
دریا کو صدا دوں کہ سمندر کو پکاروں
جیون بھی تو الجھی ہوئی ڈوروں کی طرح ہے
اس سوچ میں گم ہوں کہ اسے کیسے سنواروں
اب اس کے سوا میرا کوئی خواب نہیں ہے
ہر سانس کو خوشنودئ جاناں پہ میں واروں
بہتر ہے کہ اب موت کو سینے سے لگا لوں
اس من کو تِرے ہجر میں اب کتنا میں ماروں
پہلے تو فقط حسرت دیدار تھی واثق
اب یہ بھی طلب ہے کہ اسے جیت کے ہاروں
سعید واثق
No comments:
Post a Comment