کچھ بتاؤ تو سہی
ہر طرف کیوں ہے دھواں
خیمۂ جاں میں لرزتے ہیں دِیے خواہش کے
اور کسی لو کو سرکنے کی اجازت بھی نہیں
کسی امید کا در کھُلتا نہیں
کسی قرطاس پہ کھلتے نہیں روشن لہجے
کیا اجالوں کے صحیفوں کو مسیحا نے جلا ڈالا ہے
کیوں درختوں نے پرندوں کے ترانوں میں اداسی پھونکی
آؤ اک عہد کریں
کوئی تابوت بناتے ہیں اندھیروں کے لیے
اب نئے سال کے دامن میں ہمیں
سرخ لفظوں کو نہیں بونا ہے
سبز لمحوں کو نہیں کاٹنا ہے
نوید ملک
No comments:
Post a Comment