Friday 28 January 2022

کچھ بتاؤ تو سہی ہر طرف کیوں ہے دھواں

 کچھ بتاؤ تو سہی

ہر طرف کیوں ہے دھواں

خیمۂ جاں میں لرزتے ہیں دِیے خواہش کے

اور کسی لو کو سرکنے کی اجازت بھی نہیں

کسی امید کا در کھُلتا نہیں

کسی قرطاس پہ کھلتے نہیں روشن لہجے

کیا اجالوں کے صحیفوں کو مسیحا نے جلا ڈالا ہے

کیوں درختوں نے پرندوں کے ترانوں میں اداسی پھونکی

آؤ اک عہد کریں

کوئی تابوت بناتے ہیں اندھیروں کے لیے

اب نئے سال کے دامن میں ہمیں

سرخ لفظوں کو نہیں بونا ہے

سبز لمحوں کو نہیں کاٹنا ہے


نوید ملک

No comments:

Post a Comment