Friday 28 January 2022

اسے بھلا کے بھی یادوں کے سلسلے نہ گئے

 اسے بھلا کے بھی یادوں کے سلسلے نہ گئے

دل تباہ! تِرے اس سے رابطے نہ گئے

کتاب زیست کے عنواں بدل گئے لیکن

نصاب جاں سے کبھی اس کے تذکرے نہ گئے

مجھے تو اپنی ہی سادہ دلی نے لوٹا ہے

کہ میرے دل سے مروت کے حوصلے نہ گئے

میں چاند اور ستاروں کے گیت گاتا رہا

مِرے ہی گھر سے اندھیروں کے قافلے نہ گئے

رئیس! جرأتِ اظہار میرا ورثہ ہے 

قصیدے مجھ سے کسی شاہ کے لکھے نہ گئے 


رئیس وارثی

No comments:

Post a Comment