عکس بن کر وہ مِرے دل میں اتر جائے گا
پھر مِری سوچوں کا شیرازہ بکھر جائے گا
دشت کا سناٹا پیہو کی صدا چیرے گی جب
آئینے میں ایک سایہ سا سنورتا جائے گا
چبھ رہا ہے جو مِری سانسوں میں کانٹے کی طرح
اشک بن کر میری آنکھوں سے چھلکتا جائے گا
لاکھ ہوں طوفان دل کیں پر بظاہر مطمئن
چپ رہے گا پتیاں چُن کر مسلتا جائے گا
اک ستارہ ٹوٹنے سے کم نہ ہو گی روشنی
دل چراغِ رہگزر بن بن کے جلتا جائے گا
وہ بکھر تو جائے گا میرے بچھڑنے سے غزل
رفتہ رفتہ وقت کے سانچے میں ڈھلتا جائے گا
شگفتہ غزل
No comments:
Post a Comment