Friday 28 January 2022

جب تم نہیں تو تخت سلیماں کا کیا کریں

 جب تم نہیں تو تختِ سلیماں کا کیا کریں

ہم دولتِ دمشق و خراساں کا کیا کریں

ہوں لاکھ مہربان بہاریں گلاب پر

اندیشۂ فراقِ بہاراں کا کیا کریں

توبہ کا در بھی بند ہے اور میکدہ بھی بند

کوئی بتائے نفسِ پشیماں کا کیا کریں

تم بھی نہیں ہو سایۂ دیوار بھی نہیں

ایسے میں زورِ گرمئ دوراں کا کیا کریں

اب جب کہ شاعری کا شغف ہی نہی رہا

اب کچھ علاج ہم غمِ انساں کا کیا کریں

جو ہجرتوں کے عہد میں یکسر جمے رہے

وہ پیڑ بھی اکھڑتے ہیں طوفاں کا کیا کریں

جو دافعِ خیالِ غزالاں نہ ہو سکا

ہم ایسے شوقِ وسعتِ زنداں کا کیا کریں

راجز ہم ان کے سامنے بیٹھے ہوئے بھی ہیں

اور سوچتے ہیں تلخئ ہجراں کا کیا کریں


راجز ودوان

علی ذوالقرنین

No comments:

Post a Comment