Friday 28 January 2022

اتنی گہری تھکن راستوں کی تھکن

 اتنی گہری تھکن


راستوں کی تھکن

جھانجروں کی طرح

میرے پیروں میں بجتی رہی عمر بھر

ایک لمحہ جو رشتوں کی پہچان تھا

وقت کے جنگلوں میں کہیں کھو گیا

میرے گھر کی طرف جانے والی گلی

دائیں بائیں کو جاتے ہوئے راستوں میں 

کہیں رہ گئی

دشت ہی دشت ہے میں جہاں آ گئی

خاک اڑتی ہے بس

وحشتیں ہیں فقط

چند کیکر ہیں، کانٹے ہیں، سایا نہیں

کوئی موسم بھی پل بھر کو آیا نہیں

اور گہری تھکن

جھانجروں کی طرح

اب بھی پیروں سے لپٹی ہوئی ہے مگر

اس کی جھنکار کا شور ہوتا نہیں

اب کوئی بھی مِرے ساتھ روتا نہیں


سیما غزل

No comments:

Post a Comment