اتنی گہری تھکن
راستوں کی تھکن
جھانجروں کی طرح
میرے پیروں میں بجتی رہی عمر بھر
ایک لمحہ جو رشتوں کی پہچان تھا
وقت کے جنگلوں میں کہیں کھو گیا
میرے گھر کی طرف جانے والی گلی
دائیں بائیں کو جاتے ہوئے راستوں میں
کہیں رہ گئی
دشت ہی دشت ہے میں جہاں آ گئی
خاک اڑتی ہے بس
وحشتیں ہیں فقط
چند کیکر ہیں، کانٹے ہیں، سایا نہیں
کوئی موسم بھی پل بھر کو آیا نہیں
اور گہری تھکن
جھانجروں کی طرح
اب بھی پیروں سے لپٹی ہوئی ہے مگر
اس کی جھنکار کا شور ہوتا نہیں
اب کوئی بھی مِرے ساتھ روتا نہیں
سیما غزل
No comments:
Post a Comment