پھر کسی خواب کی پلکوں پہ سواری آئی
خوش اُمیدی کو لیے بادِ بہاری آئی
پھول آئے ہیں نئی رُت کے، نئی شاخوں پر
موجۂ ماہِ دلآرام کی باری آئی
نامُرادانہ کہیں عمر بسر ہوتی ہے
شاد کامی کے لیے، یاد تمہاری آئی
منتظر رہتی ہیں کس واسطے آنکھیں میری
اس گزرگاہ پہ کب اس کی سواری آئی
اور پھر پھیل گیا رنگِ محبت رُخ پر
لالۂ زخم لیے یار کی یاری آئی
ہم نے اک روز زباں کھول دی سچ کہنے کو
اور پھر شامتِ اعمال ہماری آئی
ہوس و عشق کے احوال رقم کرنے کو
پردۂ شعر میں افسانہ نگاری آئی
مہتاب حیدر نقوی
No comments:
Post a Comment