Friday, 28 January 2022

کرونا وہ رقیب جاں طلب ہے

 چلو اے جانِ جاں اب ایسا کرتے ہیں


کرونا وہ رقیبِ جاں طلب ہے

جو بے آواز چل کر

آپ کی سانسوں کے رستے 

روح کی تہہ میں اُترتا ہے

سو اے میرے محبت زاد

میرے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے 

کام کرنے، بات کرنے کے لیے 

اک ہاتھ کی دوری کو ہم دونوں اگر قائم رکھیں گے 

تو محبت بھی ہمارا ساتھ دے گی

یہ دوری بھی عجب دوری ہے

جو پہلے زمانوں میں بڑی اچھی لگا کرتی تھی 

اس میں بھی محبت کی طرح کی اک کشش ہوتی تھی

ہم اس دوری پہ رہ کر بھی ہمیشہ ساتھ رہتے تھے

مگر وہ دن، وہ دوری اور محبت کا زمانہ اور تھا

یہ اور ہے

اُن دوریوں میں ایک لذت اور محبت اور صداقت تھی

مگر جسموں کی اِن سرگوشیوں میں اب

محبت کی ہوس ہی رہ گئی ہے

نہ جانے ہے بھی یا؟

چلو اے جانِ جاں! ہم اس کرونے کو 

محبت کی صداقت اور عداوت بھی دکھاتے ہیں

چلو، بس اک نظر کے فاصلے پر رہ کے

اب ہم اس رقیبِ جاں طلب کی جان لیتے ہیں

نظر کا فاصلہ میلوں کا ہو کر بھی 

پلک بھر ہی کا ہوتا ہے

سو اے جانِ جہاں! یہ دھیان رکھنا ہے

نہ مجھ کو چُھو کے تجھ تک

اور نہ تجھ کو چُھو کے مجھ تک یہ کرونا آ سکے

ترسے، ہمارا خون پینے کے لیے ترسے

اس قدر ترسے کہ 

میری اور تمہاری دوری کے صحرا میں 

جل بُھن کر یہ مر جائے


ایوب خاور

No comments:

Post a Comment