کوئی صحرا یا دریا کا کنارہ ڈھونڈ لیتے ہیں
چلو اب ہم بھی جینے کا سہارا ڈھونڈ لیتے ہیں
میں جتنے گھر بھی بدلوں فرق پڑنا ہی نہیں مجھ کو
کہ غم مجھ سے یوں واقف ہیں دوبارہ ڈھونڈ لیتے ہیں
نہیں گر تم نے توڑا تو تعلق کیسے ٹوٹا ہے
قصور اس میں تمہارا تھا، ہمارا ڈھونڈ لیتے ہیں
خوشی کو میں نہیں ملتا جبھی تو لوٹ جاتی ہے
مگر یہ غم مجھے سارے کا سارا ڈھونڈ لیتے ہیں
ہوا کی سانس اُکھڑی ہے یہ کیوں پھولوں پہ بن آئی
یہ کس نے زلفِ برہم کو سنورا ڈھونڈ لیتے ہیں
تمہارے شہر میں اب ہم کبھی تنہا نہیں ہوں گے
اُداسی اپنی واقف ہے دوبارہ ڈھونڈ لیتے ہیں
یہاں بیٹھو، تسلی سے بتاؤ داستاں اپنی
اُسے ہم ڈھونڈ لیتے ہیں خدارا ڈھونڈ لیتے ہیں
پڑا ہو گا کسی کونے میں تکیہ خاک کا لے کر
کہاں ہے ماں کا وہ اپنی دُلارا ڈھونڈ لیتے ہیں
وہ جس نے تم کو رستے میں ہی چھوڑا تھا وہی اپنا
اگر وہ پھر سے ہو جائے تمہارا، ڈھونڈ لیتے ہیں
اُسے دیکھو جو بیٹھا ہے یہ پانی آنکھ میں لے کر
کیا کس نے مِری جانب اشارہ، ڈھونڈ لیتے ہیں
عجیب ساجد
No comments:
Post a Comment