Friday 28 January 2022

جو کہہ چکا ہوں اس سے مکرتا نہیں ہوں میں

 جو کہہ چکا ہوں اس سے مکرتا نہیں ہوں میں

اپنے سوا کسی سے بھی ڈرتا نہیں ہوں میں

ہر چند اپنے ظرف میں رہتا نہیں ہوں میں

لیکن یہی کہ دشت ہوں دریا نہیں ہوں میں

میں دور سے سرابِ نظر ہوں نظر سے دور

دیکھو جو مجھ کو پاس سے ایسا نہیں ہوں میں

وہ زلف ہوں کہ جس کو سنوارا ہے زیست نے

دوشِ صبا گواہ، بکھرتا نہیں ہوں میں

تم کو بھی اپنی طرح پریشان دیکھ کر

محسوس ہو رہا ہے کہ تنہا نہیں ہوں میں

میں بھی آئینہ ہوں صفاتِ جمال کا

ویسے یہ اور بات کہ تجھ سا نہیں ہوں میں

اب دردِ مشترک ہے مِرا درد ساتھیو

اب مقتلِ وفا میں اکیلا نہیں ہوں میں

اس کا بھی کچھ علاج اے کور دیدگاں

تم سب کو بھی روشنی میں دکھتا نہیں ہوں میں

اے حادث و قدیم کی مردہ روایتوں

میں اتنا جانتا ہوں کہ مرتا نہیں ہوں میں


خالد علیگ

No comments:

Post a Comment