جو کہہ چکا ہوں اس سے مکرتا نہیں ہوں میں
اپنے سوا کسی سے بھی ڈرتا نہیں ہوں میں
ہر چند اپنے ظرف میں رہتا نہیں ہوں میں
لیکن یہی کہ دشت ہوں دریا نہیں ہوں میں
میں دور سے سرابِ نظر ہوں نظر سے دور
دیکھو جو مجھ کو پاس سے ایسا نہیں ہوں میں
وہ زلف ہوں کہ جس کو سنوارا ہے زیست نے
دوشِ صبا گواہ، بکھرتا نہیں ہوں میں
تم کو بھی اپنی طرح پریشان دیکھ کر
محسوس ہو رہا ہے کہ تنہا نہیں ہوں میں
میں بھی آئینہ ہوں صفاتِ جمال کا
ویسے یہ اور بات کہ تجھ سا نہیں ہوں میں
اب دردِ مشترک ہے مِرا درد ساتھیو
اب مقتلِ وفا میں اکیلا نہیں ہوں میں
اس کا بھی کچھ علاج اے کور دیدگاں
تم سب کو بھی روشنی میں دکھتا نہیں ہوں میں
اے حادث و قدیم کی مردہ روایتوں
میں اتنا جانتا ہوں کہ مرتا نہیں ہوں میں
خالد علیگ
No comments:
Post a Comment