Friday 28 January 2022

مسافر ہے مگر اپنا ٹھکانہ لے کے آیا ہے

 مسافر ہے، مگر اپنا ٹھکانہ لے کے آیا ہے

بڑا خوددار ہے اور اک زمانہ لے کے آیا ہے

گلوں نے اوڑھ رکھیں ہیں قبائیں شامِ حسرت کی

یہ منظر خوبصورت تازیانہ لے کے آیا ہے

میں اپنے دل کے لٹنے کا سبب کیا پوچھتی اس سے

بڑا دلچسپ رہزن ہے،۔ بہانہ لے کے آیا ہے

تمہاری آنکھ میں ہیرے چمکتے صاف دکھتے ہیں

پرانے وقت کا ساتھی خزانہ لے کے آیا ہے

مِرے آنے کو جانے کو، وہ جانے کیا سمجھتا ہے

وفا سے نابلد ہے، اور فسانہ لے کے آیا ہے

بھلے موسم میں پھولوں سے بھری بیلیں مہکتی ہیں

پپیہا پی کہاں کا اک ترانہ لے کے آیا ہے

چلو اب ختم ہے قصہ وفاؤں کا، خطاؤں کا

نیا اک باب ہے اور شاعرانہ لے کے آیا ہے


شائستہ مفتی

No comments:

Post a Comment