یاد سے تیری فضائے شب منور ہو گئی
تیری خوشبو سے مِری جاں تک معطر ہو گئی
خوں بہا ماضی کا دینا ہم پہ واجب ہو گیا
فصل اب تیغ و تبر کی بھی مقرر ہو گئی
گردش دوراں سے پسپا ہو نہیں پایا مگر
تیرے ماتھے کی شکن میرا مقدر ہو گئی
وہ نگاہ دل ربا جس پر کہ ہم کو ناز تھا
دل کے شیشے کے لیے کیوں آج پتھر ہو گئی
کیسے سمجھوں اب گرانی کا زمانہ آ گیا
خون انساں کی تو قیمت کم سے کمتر ہو گئی
ظلم کے شعلے بھڑکتے جا رہے ہیں ہر طرف
زندگی کیا ہے حدیث تیغ و خنجر ہو گئی
تیرے آنے سے چمن میں آ گئی پھر سے بہار
خشک ٹہنی بھی یہاں اب تو گل تر ہو گئی
وہ بھی تھی تخلیق کے سیل رواں کی اک ترنگ
روح انساں کیسے غمگین و مکدر ہو گئی
درد کے رشتے سے دنیا میرے دل میں آ بسی
اک ذرا سی آب جو بڑھ کر سمندر ہو گئی
لوٹ کر تنہائیاں کرتی سکوں تاراج ہے
یاد تیری میری خاطر ایک لشکر ہو گئی
اس جبیں پر آ گیا عرق ندامت کا گہر
ڈوب جاؤں بوند وہ ایسا سمندر ہو گئی
وجاہت علی سندیلوی
No comments:
Post a Comment