ہزار لوگوں میں بس دو یا تین مشکل سے
خدا بناتا ہے تجھ سے حسین مشکل سے
یہ کیسے لوگ ہیں ہونٹوں کو چوم لیتے ہیں
کہ ہم نے چومی فقط اک جبین مشکل سے
فرشتو! آؤ، کرو مل کے میرا استقبال
بچا کے لایا ہوں دنیا سے دِین مشکل سے
کسی جواب کی اس سے توقع کیسے ہو
جو شخص کرتا ہے میسج بھی سِین مشکل سے
تُو جا رہا تھا تو اک بار خواب لگنے لگا
کیا تھا آنکھوں پہ اپنی یقین مشکل سے
خدایا شکر کہ صحرا میں پُھول اُگنے لگے
ہُوا ہے معجزہ یہ دلنشین مشکل سے
تمہاری آنکھوں کو رکھا ہے قافیہ عابد
نبھا رہا ہوں غزل کی زمین مشکل سے
علی عابد
No comments:
Post a Comment