Tuesday 25 January 2022

جہاں جہاں بھی میں بولا جہاں نہیں بولا

 جہاں جہاں بھی میں بولا، جہاں نہیں بولا

سوائے میرے کوئی بھی یہاں نہیں بولا

سنے سوال سبھی جاہلوں کے میں نے مگر

سکوت اوڑھ لیا،۔ رائیگاں نہیں بولا

ہزار بار منایا ہے وجہ پوچھی ہے

پر ایک بار بھی وہ بد گماں نہیں بولا

پھر ایک روز پلٹ کر جو بے وفا آیا

وہ بولتا رہا، میں درمیاں نہیں بولا

وہ دشت، پیاس، قیامت وہ معرکہ سچ جھوٹ

زمین چیخ اٹھی،۔ آسماں نہیں بولا

سخن وری کی قسم دکھ اٹھا لیے میں نے

یزیدِ وقت کی لیکن زباں نہیں بولا

تِرے فراق میں جاناں کہاں دہائی نہ دی

کسے نہیں کہا میں نے، کہاں نہیں بولا

ہوئی روات سے جو بات کربلا پہ کچھ

وہ آب آب تھا آبِ رواں، نہیں بولا


مظہر الحق

No comments:

Post a Comment