Tuesday 25 January 2022

آواز آئینے میں نہ گر خود نمائی دے

 آواز آئینے میں نہ گر خود نمائی دے

قطرہ دکھائی دے نہ سمندر دکھائی دے

کہئے کہ اب کہاں کوئی جا کر دہائی دے

باہر کا سارا شور جب اندر سنائی دے

اب جسم و جاں کو کس کی امانت میں سونپیۓ

جب دوستوں کے ہاتھ میں خنجر دکھائی دے

اپنے لہو میں ڈوب کر ابھرا ہے آدمی

لازم ہے اب حیات اسے بر دکھائی دے

قاتل کے حق میں از رہِ انصاف اہلِ عدل

مقتول سے کہے ہیں کہ آ کر صفائی دے

جھوٹی انا کے خول سے باہر جو آ سکے

مجھ کو تو ایسا شخص پیمبر دکھائی دے

کچھ ارتباط فکر و عمل بھی تو شرط ہے

سایہ تو قد کا قد کے برابر دکھائی دے


خالد علیگ

No comments:

Post a Comment