آواز آئینے میں نہ گر خود نمائی دے
قطرہ دکھائی دے نہ سمندر دکھائی دے
کہئے کہ اب کہاں کوئی جا کر دہائی دے
باہر کا سارا شور جب اندر سنائی دے
اب جسم و جاں کو کس کی امانت میں سونپیۓ
جب دوستوں کے ہاتھ میں خنجر دکھائی دے
اپنے لہو میں ڈوب کر ابھرا ہے آدمی
لازم ہے اب حیات اسے بر دکھائی دے
قاتل کے حق میں از رہِ انصاف اہلِ عدل
مقتول سے کہے ہیں کہ آ کر صفائی دے
جھوٹی انا کے خول سے باہر جو آ سکے
مجھ کو تو ایسا شخص پیمبر دکھائی دے
کچھ ارتباط فکر و عمل بھی تو شرط ہے
سایہ تو قد کا قد کے برابر دکھائی دے
خالد علیگ
No comments:
Post a Comment