Wednesday 26 January 2022

مری حیات کی لکھی گئی کتاب عجیب

 مِری حیات کی لکھی گئی کتاب عجیب

متن غریب ہے اس کا تو انتساب عجیب

کسی کے ہجر نے کانٹے خیال میں بوئے

حصارِ خار میں مہکے مگر گلاب عجیب

ازل کے حبس کدوں میں چلی ہوا تازہ

نگاہِ ناز نے وا کر دئیے ہیں باب عجیب

قدم تو کوچۂ جاناں کو اٹھ گئے از خود

انا کی جان پہ ٹوٹے مگر عذاب عجیب

وفورِ شوق میں آنکھیں سوال ہوتی ہیں

لبوں پہ کانپتے رہتے ہیں اضطراب عجیب

فرازِ طور پہ لفظوں کو افتخار ملا

سوالِ شوخ سے بڑھ کر ملا جواب عجیب

گئے برس بھی یہاں آشتی کا قحط رہا

اور اب کے سال اٹھے خوف کے سحاب عجیب

رگِ حیات کہاں لامکاں کی بات کہاں

جنابِ شیخ نے پیدا کئے حجاب عجیب


یعقوب آسی

No comments:

Post a Comment