Wednesday 26 January 2022

گھرانوں سے محبت کی فضائیں چھین لیتے ہیں

 گھرانوں سے محبت کی فضائیں چھین لیتے ہیں

ستمگر پھول سے بچوں کی مائیں چھین لیتے ہیں

ہمارے بادشاہوں کو ہے نفرت شور سے اتنی

کہ مظلوموں سے رونے کی صدائیں چھین لیتے ہیں

کہیں ہیں کفر کے فتوے، کہیں شور ملامت ہے

خدا جب لوگ بن جائیں جزائیں چھین لیتے ہیں

الٰہی تیری بستی میں یہ کیسے لوگ بستے ہیں

سروں پر ہاتھ رکھتے ہیں ردائیں چھین لیتے ہیں

کسی مفلس کی مجبوری کسی کی بھوک کا سودا

خدا کے نام پر ظالم قبائیں چھین لیتے ہیں

زبان نرم سے کرتے ہیں پہلے پیار کی باتیں

بلا کر پاس پھر جبراً حیائیں چھین لیتے ہیں

مِری کھڑکی کے آگے لوگ اٹھا دیتے ہیں دیواریں

مِرے کمرے کے حصے کی ہوائیں چھین لیتے ہیں

محبت ڈھیر پر کچرے کے ہر اک جا بلکتی ہے

کہ تہمت بانٹنے والے وفائیں چھین لیتے ہیں

بتاؤ کس طرح تشنہ یہاں سیراب ہو کوئی

سمندر خشک صحرا سے گھٹائیں چھین لیتے ہیں


حمیرا گل تشنہ

No comments:

Post a Comment