Wednesday 26 January 2022

بستی ملی مکان ملے بام و در ملے

 بستی ملی, مکان ملے, بام و در ملے

میں ڈھونڈھتا رہا کہ کہیں کوئی گھر ملے

بے سمت کائنات میں کیا سمت کی تلاش

بس چل پڑے ہیں راہ جہاں اور جدھر ملے

آوارگی میں تم بھی کہاں تک چلو گے ساتھ

پہلے بھی راستے میں کئی ہم سفر ملے

لگتا ہے اب کے جان ہی لے لے گی فصل گل

اشکوں میں آج بھی کئی لخت جگر ملے

شاید گزر رہا ہوں کسی کربلا سے میں

خیمے جلے ہوئے ملے نیزوں پہ سر ملے

میں چاہتا ہوں کاٹ دے کوئی مِری یہ بات

جتنے بڑے درخت ملے بے ثمر ملے

کیا ہاتھ پانو مار رہے ہو زمین پر

ڈوبو سمندروں میں تو شاید گہر ملے


ہوش جونپوری

(اصغر مہدی ہوش)

No comments:

Post a Comment