Thursday 27 January 2022

تھا سکوت مرگ طاری عمر بھر تالاب میں

 تھا سکوتِ مرگ طاری عمر بھر تالاب میں

توڑ ڈالے میرے ہنگاموں نے در تالاب میں

دائرہ در دائرہ ہے شور سطحِ آب پر

میں نے پھینکا ایک پتھر سوچ کر تالاب میں

سب تصور کے پرندے پر لگا کر اڑ گئے

نقرئی پریاں ہیں تا حدِ نظر تالاب میں

میرا پرتو، میرا چہرہ، میرے سارے رنگ ہیں

غور سے دیکھو دریچے سے اگر تالاب میں

میں نے ٹانکے تھے ستارے تیرے آنچل میں کبھی

جھلملاتے رہتے ہیں شمس و قمر تالاب میں

شب گزیدہ ساعتیں اب راہ میں پڑتی نہیں

نور ہے حدِ نظر روشن سحر تالاب میں

ڈوبتے سورج کا منظر ہے پسِ دیوارِ آب

کھنچتے جاتے ہیں شفق قلب و نظر تالاب میں


نیر رانی شفق

No comments:

Post a Comment