Thursday 27 January 2022

آنکھ کی جھیل میں کہرام سے آئے ہوئے ہیں

 آنکھ کی جھیل میں کہرام سے آئے ہوئے ہیں

چاند ڈھلنے کو ہے اور شام سے آئے ہوئے ہیں

چوڑیوں اور پرندوں کے نہیں ہیں گاہک

ہم تو میلے میں کسی کام سے آئے ہوئے ہیں

تیری تصویر تو کمرے میں ہے یادوں کا گلاب

زرد پتے تو در و بام سے آئے ہوئے ہیں

بس کے اسٹینڈ پہ ٹھیلوں کو سجائے ہوئے لوگ

خود کسی کوچۂ نیلام سے آئے ہوئے ہیں

اتنا کردار ہے نوٹنکی میں اپنا جیسے

دھوپ میں موم کے اندام سے آئے ہوئے ہیں


راشد امین

دوسری ماچس

No comments:

Post a Comment