Thursday 27 January 2022

عشق نہ پیاس نہ صحرا نہ سمندر مرشد

 عشق نہ پیاس، نہ صحرا، نہ سمندر مرشد

عشق سرشاری میں بس رقصِ قلندر مرشد

عشق گر رقص ہے تو رقصِ تمنا ہو گا

عشق عشاقِ مقدر کے سکندر مرشد

وفاداری، ستم، ہجر و فراق و آہ و زاری بس

کتابِ عشق سے اگلا سبق کوئی سناؤ مرشد

یہ آدھی رات کی یخ بستگی، بارش، برفباری

کسی صورت نہیں بجھتا محبت کا الاؤ مرشد

ہمیں کافی ہے سنگِ آستاں درگاہِ الفت کا

ہمیں نہ ہمرکابی کے حسیں سپنے دکھاؤ مرشد


محمود اظہر

No comments:

Post a Comment