تشنہ فضائے صبح چمن میں خمار ہے
لیکن جو دل کی بات کروں بے قرار ہے
پھولوں کے سرخ ڈھیر کے پیچھے ہے تیز تیغ
یوسف کے بھائیوں کا کہاں اعتبار ہے
گردش کا آسمان ہے شورش کی خاک پر
آدم تِری زمیں پہ بہت سوگوار ہے
لوگوں سے ربط ضبط ہے دنیا سے اتفاق
شاید یہ اپنے آپ سے میرا فرار ہے
شکوہ کریں گے ہم نہ تغافل شعار کا
محفل میں کم سخن کا زیادہ وقار ہے
تاروں کی سیرگاہ سے اس کا پکارنا
مجھ کو عجیب وہم ہے اور بار بار ہے
تشنہ کبھی تو بیٹھ کے ان سے کلام کر
کیوں تجھ کو خامشی سے بتا اتنا پیار ہے
حمیرا گل تشنہ
No comments:
Post a Comment