سوا خلوص کے نکلی نہیں کوئی میراث
سو وارثوں میں اسی دن ہی بٹ گئی میراث
تمہارا نام سلامت رہا ہے، شہرت بھی
تمہارے شہر میں لُٹتی رہی مِری میراث
ہزار یار تھے میں اس لیے بچا نہ سکا
شعور و مہر و وفا ذکر و فکر کی میراث
خیال دل میں ہے آیا انہیں بچانے کا
وہ کب کہ چھن چکی عزت کی جب سبھی میراث
طلا و سیم ہیں بڑھتے ہیں کم بھی ہوتے ہیں
ہوئی ہے علم کی بھی کم بھلا کبھی میراث
یہ سوچتے ہیں سبھی اہلِ زر کے بارے میں
مریں وہ جلد کہ لیں ان کی جلد ہی میراث
سنبھالنے کو اِسے کچھ تو وقت ہے درکار
مرا ہے باپ، ملی ہے نئی نئی میراث
پسر ہے عاری ہے احمد وفا شعاری سے
کہ اس میں باپ نے چھوڑی بہت بڑی میراث
شکیل احمد
No comments:
Post a Comment