Tuesday 25 January 2022

کوئی کیا جانے اس کے حسن کی دنیا کہاں تک ہے

 کوئی کیا جانے اس کے حسن کی دنیا کہاں تک ہے

وہیں تک دیکھ سکتا ہے نظر جس کی جہاں تک ہے

تڑپتا ہوں کسی کی یاد میں، اور یہ سمجھتا ہوں

یہ بے چینی محبت کی فقط عمرِ رواں تک ہے

خلش بڑھتی چلی جاتی ہے ہر لحظہ نگاہوں کی

خدا جانے ہمارے شوق کا عالم کہاں تک ہے؟

لگی ہے آگ سینے میں مگر یہ سوچ کر چُپ ہوں

بھرم اہلِ محبت کا فقط ضبطِ فُغاں تک ہے

کہیں ایسا نہ ہو اس کو ہوائے غم بُجھا ڈالے

تمہارے رخ کی تابانی مِرے سوزِ نہاں تک ہے

نہ گھبرائیں چمن والے نویدِ امن دیتا ہوں

رسائی بجلیوں کی صرف میرے آشیاں تک ہے

وفا کی منزلوں سے بے نیازانہ گزر شارق

طبیعت کی پریشانی غمِ سُود و زیاں تک ہے


شارق میرٹھی

No comments:

Post a Comment