ہم نہ پارسا رہے نہ دنیا دار ہوئے
زمانے بھر میں بھی ہمی خوار ہوئے
جس نے دیکھا اک حقارت تھی عیاں
سب کے جیسے ہمی قرض خوار ہوئے
معصیت تھی ہمارا پہلا ہی خاصہ
جن کی نیت نہ کی گناہ شمار ہوئے
ایک عجب الزام یہ بھی تھا ہم پر
غریب الوطنوں سے ہمکنار ہوئے
دلِ سادہ نہ رُخ پہ مکاری کا جال
ہم بڑے ہی ناکام سے اداکار ہوئے
زمیں کے خداؤں نے کیا خوار ہمیں
نقاب در نقاب چہرے بڑے مکار ہوئے
نہ تھا پُر کیف اندازِ طلب و لساں مِرا
نحیف و بے اثر سے اک صداکار ہوئے
قیصر مختار
No comments:
Post a Comment