Thursday 27 January 2022

پھر بے خودی نے اس کو پکارا ہے آج کل

 پھر بے خودی نے اس کو پکارا ہے آج کل

بچھڑا ہوا وہ شخص ہمارا ہے آج کل

دل میں تِری طلب نے اٹھائی ہیں شورشیں

یادوں کا تیری ہم کو سہارا ہے آج کل

سرگوشیوں میں ہونے لگی ہے کسی سے بات

تنہائیوں کا ساتھ بھی پیارا ہے آج کل

بیٹھے ہوئے ہیں تیرے تصور کو تھام کے

بس شاعری پہ اپنا گزارا ہے آج کل

پہنے ہوئے ہیں آنکھوں نے سوچوں کے پیرہن

دل پر اداسیوں کا اجارا ہے آج کل

جانے کہاں چھپا ہے تو اپنا پتا تو بھیج

آوارگی کا دل کو اشارا ہے آج کل

گردش میں اپنے زین ستارے نہیں اگر

پھر غم سا دل میں کس نے اتارا ہے آج کل


انوار زین

No comments:

Post a Comment