پھر بے خودی نے اس کو پکارا ہے آج کل
بچھڑا ہوا وہ شخص ہمارا ہے آج کل
دل میں تِری طلب نے اٹھائی ہیں شورشیں
یادوں کا تیری ہم کو سہارا ہے آج کل
سرگوشیوں میں ہونے لگی ہے کسی سے بات
تنہائیوں کا ساتھ بھی پیارا ہے آج کل
بیٹھے ہوئے ہیں تیرے تصور کو تھام کے
بس شاعری پہ اپنا گزارا ہے آج کل
پہنے ہوئے ہیں آنکھوں نے سوچوں کے پیرہن
دل پر اداسیوں کا اجارا ہے آج کل
جانے کہاں چھپا ہے تو اپنا پتا تو بھیج
آوارگی کا دل کو اشارا ہے آج کل
گردش میں اپنے زین ستارے نہیں اگر
پھر غم سا دل میں کس نے اتارا ہے آج کل
انوار زین
No comments:
Post a Comment