Thursday 27 January 2022

شکم کی آگ بجھانے میں تھک کے بیٹھ گئے

 شکم کی آگ بجھانے میں تھک کے بیٹھ گئے

ہم اپنا بوجھ اٹھانے میں تھک کے بیٹھ گئے

اندھیرے جن کے نصیبوں میں تھے اندھیرے رہے

چراغ لوگ جلانے میں تھک کے بیٹھ گئے

غریبِ شہر سہولت سے سو نہیں پائے

نصیب سوئے جگانے میں تھک کے بیٹھ گئے

قسیم رزق کی تقسیم تو ہی جانتا ہے

کہ بھوکے ہاتھ بڑھانے میں تھک کے بیٹھ گئے

امیرِ شہر غریبوں کا کچھ خیال کرو

تمھارے نعرے لگانے میں تھک کے بیٹھ گئے

ہم ایسے لوگوں کو شہزاد کچھ بھی راس نہیں

ہم اپنا آپ بسانے میں تھک کے بیٹھ گئے


شہزاد جاوید

No comments:

Post a Comment