شکم کی آگ بجھانے میں تھک کے بیٹھ گئے
ہم اپنا بوجھ اٹھانے میں تھک کے بیٹھ گئے
اندھیرے جن کے نصیبوں میں تھے اندھیرے رہے
چراغ لوگ جلانے میں تھک کے بیٹھ گئے
غریبِ شہر سہولت سے سو نہیں پائے
نصیب سوئے جگانے میں تھک کے بیٹھ گئے
قسیم رزق کی تقسیم تو ہی جانتا ہے
کہ بھوکے ہاتھ بڑھانے میں تھک کے بیٹھ گئے
امیرِ شہر غریبوں کا کچھ خیال کرو
تمھارے نعرے لگانے میں تھک کے بیٹھ گئے
ہم ایسے لوگوں کو شہزاد کچھ بھی راس نہیں
ہم اپنا آپ بسانے میں تھک کے بیٹھ گئے
شہزاد جاوید
No comments:
Post a Comment