Thursday 27 January 2022

کیا اس رستے سے گزرے تھے

 کیا

اس رستے سے گزرے تھے

یا درخت پر کُھدا نام دیکھا

وہ فقیر کی دُعا یاد ہے

اس بچے سے پھر گجرا لیا

بارش کو محسوس کیا

یا تھک کر کتاب کو بند کیا

قلم اب بھی روانی سے چلتا ہے

خواب کوئی پھر نیا دکھتا ہے

سکوں ہوا ہے عذاب کیا

لیا ہے لب نے وہ نام کیا

کیوں کچھ کہتے کہتے رک گئے

برسات کے موسم ویسے ہی گزر گئے

سوچ سوچ پر اختیار ہے کیا

اب تمہارا حال ہے کیا

بولو

مجھ سے بچھڑ جانے کے بعد


لبنیٰ مقبول غنیم

No comments:

Post a Comment