Wednesday 26 January 2022

ملتی ہے نظر ان سے تو کھو جاتے ہیں ہم اور

 ملتی ہے نظر ان سے تو کھو جاتے ہیں ہم اور

منزل کے قریب آ کے بہکتے ہیں قدم اور

مارے ہوئے ہیں کشمکش وہم و یقیں کے

ٹوٹے ہوئے ہر بت سے تراشے ہیں صنم اور

یہ بات سمجھتے ہی نہیں حضرت ناصح

سلتا ہے اگر چاک تو کھلتا ہے بھرم اور

تدبیر کا ہر نقش دل آویز ہے لیکن

ہے کاتب تقدیر کا انداز رقم اور

جذبات پہ مہریں نہ لگی ہیں نہ لگیں گی

ہوتی ہے زباں بند تو چلتا ہے قلم اور

شاید یہ صلہ ترکِ طلب کا ہے فریدی

بڑھتی ہی گئی وسعت دامان کرم اور


مغیث الدین فریدی

No comments:

Post a Comment